شاہین باغ میں آج دوپہر دو مزدور بجلی کی زد میں آکر جھلس کر ہلاک ہوگئے۔ چلچلاتی دھوپ میں بھی روزگار کی خاطر وہ عمارت کی دیواروں پر چڑھ کر چونا قلعی کررہے تھے۔ مرتے کیا نہ کرتے؛ کچھ حالات کی ناسازگاری کچھ مالک کی زور زبردستی، غریب مزدور بہرحال حالات کے سامنے مجبور ہوہی جاتا ہے۔ آبادی کے بیچ سے بجلی کے یہ خطرناک تار اس وقت سے گزر رہے ہیں جب یہاں آبادی بالکل نہیں تھی۔ جب آبادی کی شروعات ہوئی تو حکومت کی طرف سے سخت احکامات جاری ہوتے رہے کہ تار کے آس پاس تقریباً سترہ فٹ کی دوری تک کوئی تعمیراتی کام نہ کیا جائے لیکن لاقانونیت کی اخلاقیات کو بھی باشندگان شاہین باغ و ابوالفضل نے طاق پر رکھ کر تاروں کے نیچے تک تعمیرات کروانے لگے اور تعمیرات کے دوران وقتا فوقتا مزدوروں کی ھلاکت جیسے (معمولی ) حادثات بھی ہوتے رہے لیکن چونکہ وہ تعمیرات مزدور وں کی جان سے کہیں قیمتی تھیں اور مزدوروں کے خاندان عدالتوں اور پولیس چوکیوں سے بہت دور رہنے میں اپنی بقا سمجھتے ہیں تعمیرات زوروشور پر جاری رہیں۔ آج یہ حالت ہے کہ اس علاقے کی اصل مارکٹ تاروں کے سائے میں ہی چل رہی ہے جو کہ
مجبور مزدوروں نے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر تعمیر کی ہے اور آج چند مزدوروں کی موت باشندگان علاقہ کے لیے چند گھنٹوں کا موضوعِ گفتگو سے بڑھ کر کچھ اور نہیں۔
لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوگا، مزدور چندہ کرکے اپنے ساتھیوں کو آس پاس کی قبرستان میں دفن کردیں گے۔ شاہین باغ سے بٹلہ ہاوس جانے والے جنازے کے پیچھے چند مزدوروں کو دیکھ کر کوئی مرنے والے کا نام او ر موت کا سبب بھی پوچھنا گوارا نہیں کرے گا۔ چند یتیم بچے کل سے اسکول نہیں جائیں گے اور مزید چند بیواووں کا سماج میں اضافہ ہوجائے گالیکن غیر اخلاقی و غیر قانونی تعمیرات بہر حال جاری رہیں گی اور وہی لاچار مزدور اس ادھورے کام کو پورا کرنے میں لگ جائیں گے۔ اللہ مزدوروں کو جنت میں اونچا مقام عطا کرے کہ وہ خود دھوپ اور بارش کو برداشت کرتے ہوئے دوسروں کو دھوپ اور بارش سے بچاتے ہیں اور اس عظیم کام کو کرتے ہیں۔ ان کے مرنے پر ہماری نیندیں اڑجانی چاہئیں اور ہمیں ان کے تحفظ کا اتنا ہی خیال رکھنا چاہئیے جتنا ہم اپنے تحفظ کا خیال کرتے ہیں۔ اس طرح کی خطرناک تعمیرات کو فوری ہمیشہ کے لیے رکوانے کی جدوجہد کرنی چاہئیے۔
- صلاح الدین ایوب